شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں؟ ماتم کب اور کس نے شروع کروایا؟
سانحہ کربلا کے بعد کئی دہائیوں تک بغداد و بصرہ میں یوم عاشور کے موقع پر سوگ منایا جاتا رہا۔ بازار بند رہتے اور لوگ سوگ کی سی کیفیت میں سارا دن غمزدہ رہ کر سانحہ کو یاد کرتے۔ اس کے برعکس اہل شام اپنے سیاسی اختلافات کی بنا پر بغداد و بصرہ والوں کو چڑانے کیلئے اس دن غسل کا اہتمام کرکے صاف کپڑے پہن کر خوشبو لگاتے۔ اہل علم علما کے نزدیک یوم عاشور ایک سانحہ ہی تھا اور اس دن خوشیاں منانا صرف اور صرف شیطانی فعل تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سینہ کوبی اور ماتم وغیرہ کو بھی ایک بدعت کے طور پر ہی لیا جاتا رہا، خاص کر اس وقت جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر تو ماتم ہوتا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت جیسے سانحات پر ایسا کوئی اہتمام نظر نہ آتا جیسا کہ 10 محرم کو کیا جاتا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور چند صدیوں بعد بدعتوں میں بھی ترقی آتی گئی۔ صرف چہرے سے غمزدہ دکھائی دینے کی بجائے سیاہ لباس اور چہرے اور سینے پر ہلکے ہاتھوں سے پیٹنے کا عمل شامل ہوتا گیا۔ 16 ویں اور 17 ویں صدی کے درمیان انگریز راج پوری دنیا میں پھیل رہا تھا اور انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زریعے برصغیر میں بھی قدم جمانے شروع کردیئے۔ اس وقت مسلمان اکثریت کے تمام ممالک پر برطانوی راج تھا۔ مہذب دنیا کو دکھانے کیلئے کہ ان مسلم ممالک میں کس قسم کے ' انتہا پسند ' لوگ آباد ہیں، گوروں نے ایک انوکھی چال چلی۔ انہوں نے محرم میں ہلکی پھلکی سینہ کوبی کرنے والوں کو پیسے اور نوکریوں کا لالچ دے کر ان سے زنجیر زنی اور خنجر زنی جیسے متشدد کام کروانا شروع کردیئے۔ غریب محکوم لوگ، جن کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہوتی تھی، وہ اس لالچ میں آجاتے اور 10 ویں محرم کو زنجیر زنی، جسم پر خنجر وغیرہ مارنا اور کوئلوں پر چلنا شروع کردیتے۔ زخمی ہونے کے بعد انہیں کمشنر کی ہدایات پر ضروری طبی امداد اور اس متشدد ماتم کے معاوضے کے طور پر کچھ رقم مل جاتی جس سے وہ اپنے زخم بھول جاتے اور دعا کرتے کہ سال کا ہر دن 10 محرم ہو تاکہ انہیں اچھا معاوضہ تو ملتا رہے۔ چند سال تک پیسے دے کر ماتم کروانے کے بعد انگریزوں کو مزید پیسے خرچ کرنے کی ضرورت نہ رہی کیونکہ پھر یہ ایک بدعت کے طور پر محرم کی ماتمانہ پریکٹس میں شامل ہوچکا تھا۔ اب لوگ اس متشدد ماتم کے طریقے کو حسین سے محبت کے اظہار کے طور پر لینا شروع ہوگئے اور ان غریبوں کو ایک دفعہ پھر کھانے کے لالے پڑ گئے جو سارا سال 10 محرم کا انتظار کرتے کہ اس دن گوروں سے اچھا مال مل سکے گا۔ اس متشدد ماتم کی تصاویر پوری دنیا میں شائع ہوتیں اور انہیں بتایا جاتا کہ مسلمان کس قسم کے ' انتہا پسند وحشی ' لوگ ہیں اور اگر ان پر حاکمیت برقرا نہ رکھی گئی تو یہ لوگ دنیا کیلئے خطرہ بن جائیں گے۔ کہتے ہیں کہ انگریز راج کے دوران یاسین ہاشمی نامی عراقی وزیراعظم برطانیہ آیا اور ان سے آزادی کا مطالبہ کیا۔ وئسرائے نے آگے سے بغداد میں ہونے والے ماتم کی تصاویر دکھا کر یہی کہا کہ پہلے ہم آپ لوگوں کو مہذب بنا لیں، پھر آزادی بھی دے دیں گے۔ متشدد طریقے کا ماتم برصغیر سے ہی شروع ہوا۔ ایک دن بوبی نامی ایک گورا افسر کسی محرم کے جلوس کی نگرانی کررہا تھا جس میں اس نے دس، بارہ لوگ زنجیر زنی اور خنجر مارنے کیلئے چھوڑ رکھے تھے۔ ان میں سے ایک شخص اپنی کمر پر زنجیریں برسانے کے بعد اپنی جگہ سے مڑا اور ہجوم میں کھڑے اس افسر سے پوچھا کہ ' بس کروں بوبی؟ ' بوبی نے پتہ نہیں اسے جواب دیا یا نہیں لیکن ' بس کر بوبی ' بھی ایک بدعت کے طور پر ماتم میں شامل ہوتا گیا. پس تحریر: یہ پوسٹ دور غلامی میں برٹش سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے لکھی گئی ہے، اسے فرقہ وارانہ رنگ میں دیکھنے سے گریز کریں۔ اگر شیعہ حضرات بدعت کرتے ہیں تو دوسرے فرقوں میں بھی بدعتیں پائی جاتی ہیں۔ مزاروں پر جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی بدعت کی ہی ایک قسم ہے۔ فضل الرحمان کا ٹولہ بھی بدعت ہی کرتا ہے۔ اس لئے برائے مہربانی اس پوسٹ کو صرف تاریخی حوالے سے دیکھیں، اپنا مذہبی چورن بیچنے کی کوشش مت کریں۔ اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو میں اسے یہی کہوں گا کہ بس کر بوبی۔
Informative post
ReplyDeleteJazaqllah bhai
Informative
ReplyDelete