فوج دشمنی میں گزرے نواز شریف کے تین دور
فوج دشمنی میں گزرے نواز شریف کے تین دور
1990 میں اپنے پہلے دورِ حکومت سے لے کر آج تک نواز شریف صاحب کا یہ تیسرا وزارتی دورانیہ ہے۔ ان تین ادوار میں تین چیزیں ہمیشہ نواز شریف کے اولین نشانے پر رہیں۔ نمبر ایک فوج اور آئی ایس آئی۔ نمبر دو انتظامی ڈھانچہ یعنی صدر یا سپریم کورٹ نمبر تین حزبِ اختلاف۔ سنہ نوے میں اپنے پہلے دورِ حکومت میں نواز شریف پر آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کے قتل کا الزام لگا، یہ ان کے سول ملٹری تعلقات کی ایک مثال ہے۔ اسی دور میں بطورِ وزیر اعظم ان کے صدر غلام اسحاق خان سے تعلقات اتنے خراب ہوئے کہ آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کو مداخلت کر کے دونوں سے استعفی لینا پڑا۔
دوسرے دورِ حکومت میں نواز شریف نے روٹین برقرار رکھی۔ سپریم کورٹ پر حملہ کر کے پاکستان کی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا۔ آئین میں تیرھویں ترمیم کر کے صدر کے اختیارات ختم کیے جس سے وزیرِ اعظم سے پوچھ گچھ اور چیک اینڈ بیلنس ختم ہو گیا۔ پھر چند ہی دن بعد نواز شریف نے چودھویں ترمیم کر کے آئین کا کچومر نکالا، چودھویں ترمیم کا مطلب تھا کہ ارکان قومی اسمبلی پارٹی صدر کے کسی بھی فیصلے سے اختلاف نہیں کر سکتے اگر اختلاف کریں گے تو ان کے خلاف قانونی کاروائی ہو گی۔ اس ترمیم نے ایم این ایز کو پارٹی قیادت کا غلام بنا دیا اور نواز شریف احتساب سے مکمل آزاد ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف نے آئین میں پندرھویں ترمیم کےلیے کوشش شروع کر دی۔ آئینی اور سیاسی ماہرین نے اسے بدترین آمریت قرار دیا۔ اس کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ نے اعتراض کر دیا اور ساتھ ہی صدر پاکستان فاروق لغاری نے بھی۔ نواز شریف نے ایک طرف سپریم کورٹ پہ حملہ کیا اور دوسری طرف اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو مجبور کرنا شروع کر دیا کہ صدر فاروق لغاری سے استعفی لے۔ انہوں نے فاروق لغاری سے استعفی مانگنے سے انکار کر دیا جس پہ نواز شریف نے انتقامی طور پر جہانگیر کرامت سے استعفی لے لیا۔
پوری ایمانداری سے سوچیے کیا آج بھی وہی صورتحال نہیں ہے؟ نواز شریف نے احتساب سے بچنے کےلیے ایک طرف الیکشن بل پاس کروا لیا ہے، دوسری طرف یہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ میں ترمیم کرنے والے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کے وزراء روزانہ سپریم کورٹ پر بیانات سے حملہ آور ہوتے ہیں اور ساتھ ہی نواز شریف فوج سے بھی ناراض ہیں کہ فوج عدلیہ پر دباؤ کیوں نہیں ڈال رہی۔
جنرل جہانگیر کرامت کو گھر بھیج کر نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا اور ماضی کی روایت برقرار رکھی۔ مشرف کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنے کا ارادہ کیا جو جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ کیا تھا۔ وجہ کارگل جنگ تھی. نواز شریف کو امریکی صدر بل کلنٹن نے امریکہ طلب کر لیا اور یہ وہاں جا کر کارگل دے آئے. پاکستان آ کر کہا فوج نے میری پشت میں چھرا گھونپا۔ دوسری طرف بھارتی وزیرِ اعظم اند گجرال انکشافات کرتا ہے کہ نواز شریف نے مجھے کشمیری مجاہدین کی معلومات دی تھیں اور ایک دفعہ نواز شریف نے مجھ سے کہا تھا "ہم جانتے ہیں کہ ہم کشمیر آپ سے لے نہیں سکتے اور آپ ہم کو کشمیر دے نہیں سکتے" جملہ آج بھی دی ہندو بزنس لائن کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ بھارت میں اپنی تقریر کے دوران نواز شریف نے ایک طرف پاک فوج کو برا بھلا کہا اور ساتھ ہی دو قومی نظریے کا بھی انکار کیا۔ اسکے ثبوت بھی موجود ہیں، تو نواز شریف نے تو کہنا ہی تھا کہ میری پشت میں چھرا گھونپا گیا۔ بعد میں جو کچھ مشرف نے کیا وہ سب جانتے ہیں۔ ان تمام باتوں نے نواز شریف کی مقبولیت کا گراف اتنا نیچے کیا کہ اکتوبر 1999 میں حکومت برطرف ہوئی تو لاہور شہر میں عوام نے مٹھائیاں بانٹی۔
تیسرے دورِ حکومت پہ آ جائیں۔ جنرل کیانی کی مدت ختم ہوئی اور جنرل راحیل شریف نے چارج سنبھال لیا۔ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین آرمی چیف، جنرل راحیل شریف۔ لیکن ان کو صلہ نواز شریف نے ڈان لیکس کی صورت میں دیا۔ ن لیگ کا سوشل میڈیا سیل پورے 3 سال تک جنرل راحیل کی کردار کشی پہ لگا رہا۔ لیکن قوم میں اس عظیم جنرل کی مقبولیت مسلسل بڑھتی گئی۔ خیر وہ گئے اور ن لیگ والوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔ اب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجود صاحب آئے۔ ان کا استقبال ن لیگ نے اس طرح سے کیا کہ آتے ہی اپنے سینیٹر ساجد میر کے زریعے ان کو قادیانی کہلوایا۔ موجودہ حالات سے آپ خود اچھی طرح واقف ہیں کہ کس طرح نواز شریف اپنی ساکھ بچانے کےلیے پانامہ سکینڈل کا ملبہ فوج پہ ڈالتے ہیں اور اب مریم نواز سپریم کورٹ سے نااہلی کا ذمہ دار بھی اپنی نجی محفلوں میں فوج کو قرار دیتی ہیں۔ اس دفعہ نواز شریف نےصرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ موجودہ وزیرِ خارجہ امریکہ جا کر فوج کی چغلیاں لگاتے رہے کہ نواز شریف جمہوری آدمی ہے اور کچھ "غیر جمہوری قوتیں" انہیں ہٹا رہی ہیں۔ کیا یہ سچ بولا امریکہ میں جا کر خواجہ آصف نے؟ سوال یہ ہے کہ آخر نواز شریف کو کیوں اتنی دشمنی ہے فوج سے؟
No comments: